جب تاج اچھالے جائیں گے ،جب تخت گرائے جائیں گے

جب تاج اچھالے جائیں گے ،جب تخت گرائے جائیں گے


جب تاج اچھالے جائیں گے ،جب تخت گرائے جائیں گے
ڈاکٹر سلیم خان
فلسطینی انتخابات پر نظر رکھنے کی خاطر مشاہد کے طور پرآنے وفد میں سابق صدر جمی کارٹر بھی شامل تھے اور انہوں نے ببانگ دہل اس بات کی توثیق کر دی کہ انتخابات غیر جابندارانہ طریقہ منعقد ہوئے ہیں لیکن جب اس میں حماس کی کامیابی کی اطلاعات آنے لگیں تو سابق خارجہ سکریٹری کونڈالیزا رائیس نے  حیرت سے کہا اوہو یہ کیا ہورہا ہے ؟ ہمیں تو ہرگزاس کی توقع نہیں تھی ۔مصر کی موجودہ صورتحال پر نہ صرف موجودہ سکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن بلکہ سارے اوبامہ انتظامیہ کا یہی حال ہے ۔ کون جانتا تھا کہ ابھی حال میں غزہ جانے والے ایشیائی قافلہ سے جس فرعون خصلت حکمران  نے ایرانی رضاکاروں کو رعونت کے ساتھ اتار دیا تھاوہ خود اقتدار پر بنے رہنے کیلئے ہاتھ پیر مارنے کیلئے اس قدر جلدی مجبور ہو جائیگا۔جن بے گناہ لوگوں کو برسوں سے اس نے جیل میں ٹھونس رکھا ہے وہ آزاد ہو جائیں گے ۔ اسکا لاولشکر بے دست وپا ہوجائیگااور وہ خود اپنے محل میں محصور ہو  جائیگا ۔کون جانتا تھا کہ فیض احمد فیض کی نظم  "ہم دیکھیں گے"کے مناظر اس طرح  چشمِ زدن میں ہمارےسامنے آ جائیں گے  
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑ کے گی
بس رحم کرے گا الله ہی
جو طاقت بھی ہے قادر بھی
اس دنیا مفکرین و دانشور ان حالات کو دیکھ کر ششدر و حیراں ہیں لیکن قادر مطلق رب ذوالجلال نےتوسورہ ابراہیم کی٢٦ ویں آیت میں صاف صاف فرمادیا"کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے "باطل کے اس  درخت کو شیطان نہایت خوشنما اور جاذب نظر بنا کر پیش کرتا ہے جس سے اچھے اچھوں کو دھوکہ ہوجاتا ہے ۔لیکن یہ شجر اسی وقت تک لہلہاتے ہیں جب تک کہ مالک اجل کا فیصلہ نہیں آجاتا مگر جب صور پھونک دیا جاتا ہے تو یہ بے قراردرخت روئی گالوں کی مانند ہوا میں تیرنے لگتے ہیں ،ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا جیسی کہ حالت زارتیونس کےسابق سربراہ زین العابدین بن علی یامصر کے حکمراں حسنی ٰمبارک کی ہے۔ کون جانے کہ جب تک آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں اس وقت تک فرعونِ وقت کوبھی تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکا جا چکا ہو   
قرآن حکیم میں شجر خبیثہ کے ساتھ ساتھ شجر طیبہ کا بھی ذکرملتا ہے فرمان خداوندی ہے" کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ۔ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ اِن سے سبق لیں (ابراہیم ٢٥۔۲۶)
حسنیٰ مبارک کےبالمقابل  اگر  اخوان المسلمون  کو دیکھا جائے تو گویا اس آیت کی زندہ تفسیر نظر آجاتی ہے ۔یہ اس صدی کا معجزہ ہے کہ ا یک صالح تحریک کو مٹانے کی کوشش کرنے والے ایک ایک کر کے مٹا دیئے گئے ۔  شاہ فاروق اور سعد ذغلول  کو تاریخ کی دیمک چاٹ گئی  ۔جمال عبدالناصر کو قدرت نے اپنے بدترین دشمن اسرائیل کے ہاتھوں رسو ا کر کے رخصت کیا ، انور سادات خود اپنے ہی فوج چند  خوددارسپاہیوں کے ہاتھوںکیفر کردار تک پہنچااور اب اس کےجانشین حسنیٰ مبارک کو ملک کی عوام ہر دن ذلت و رسوائی کی گھڑے کی جانب ڈھکیلتی جارہی ہے۔ ساری دنیا اس شخص پر لعنت بھیج رہی ہے سوائے ملعون ِ قدیم اسرائیل کے  کہ وہ دونوں ایک جان دو قلب ہیں۔دونوں کے اندر فرعون کی روح کارفرما ہے
 اس نازک صورتحال میں نائب صدر سلیمان نے جب حزب اختلاف کو بات چیت کیلئے بلایا تو اس میں سر فہرست اخوان المسلمون کا نام تھا ۔ یہ وہی سلیمان ہے جو بدستور اخوان کے خلاف زہر افشانیاں کرتا رہا ہے۔ابھی حال میں و کی لیکس کے ذریعہ افشا ہونے والے وستاویز کے مطابق اس امریکی پٹھو نے ۲۰۰۸؁میں امریکی سفارتکار فرانسس ریکیارڈو کے سامنے یہ جھوٹ گھڑا  تھا کہ اخوان کے تحت ۱۱ دہشت گردتنظیمیں سر گرم عمل ہیں ۔ اس سے قبل ۲۰۰۶؁ میں اخوان کی انتخابی کامیابیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا یہ لوگ پابندی کے باوجودایک زبردست قوت بن کر ابھرے ہیں اور مصری معاشرے میں ان لوگوں  نے اپنی جڑیں گہری کر لی ہیں یہ افسوس ناک ہے ۔ویسے امریکی سفیر کے سامنے اس بات کو تسلیم کرنے سے  بھی سلیمان نہیں چوکا کہ  اخوان نہ تو  صرف سیاسی نتظیم ہے اور نہ صرف سماجی یا مذہبی بلکہ یہ ان تینوں کا مجموعہ ہے ۔ یہ بات  ایک حقیقت پسندانہ اعتراف تھا اس لئے کہ اسلامی تحریک کو ایسا ہی ہونا چاہئے چونکہ اسلام کا تعلق نہ صرف زندگی کے ان تین شعبوں سے ہے بلکہ  یہ دین تمام ہی شعبہ ہائے حیات پر محیط ہے اسی لئے اسے مکمل نظام حیات بھی کہا جاتا ہے ۔
  یہ ایک حقیقت ہے مصری ایوا ن کیلئے ۲۰۰۵؁ میں ہونے والے  انتخابات کے وقت اخوان المسلمون پر پابندی تھی۔ اس لئے اس کے امیدواروں کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔حکومت  نے چھاپے مارکر بے شمار رہنماوں اور کارکنان کو گرفتار کر لیا تھااور دوران انتخاب بھی زبردست  دھاندلی کی اس کے باوجود اخون کے ۸۸ امیدوار کامیاب ہوگئے اور دیگرحزب اختلاف کی جماعتوں کو صرف ۱۴ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑاگویا جن کو پال پوس کر رکھا گیا اخون  کو ان کے مقابلہ۶ گنازیادہ کامیابی حاصل ہوئی جبکہ اخون المسلمون پر گزشتہ۰ ۵ سالوں میں جو روح فرسا مظالم ہوئے ان کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں  ۔ بقول محمد علی جوہر   ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
جتنا  بھی دباؤ  گے  اتنا  ہی  یہ  پھیلے   گا
پچاس سال  تک پابندو سلاسل رکھنے کے بعد پہلی مرتبہ ایک غیر قانونی تنظیم اخون المسلمون کو مذاکرات میں شامل کرنا اسرائیل ، امریکہ اور یوروپ سب کیلئے ناگوار تھا لیکن حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ کوئی اس پر تنقید نہ کرسکا سورہ فتح کی آخری آیت  میں اس بشارت  کی منظر کشی انجیل کے حوالے سےکی گئی ہے " اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار اس کے پھلنے پھولنے پر جلیں "اس صورتحال نے نہ صرف مونین کے سینوں کو ٹھنڈک بخشی بلکہ کافروں کے دلوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔اسی کو انگریزی ادب میں فینکس نامی  ایک شاہین صفت پرندہ سے تشبیہ دی جاتی ہے  جو تباہی وبربادی کے مرقد سے اس وقت  نمودار ہوتا ہے  جب ظلم کے شعلے آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں لیکن آسمان کی بلندیوں پر پہونچ کر جب وہ اپنے پر پھیلاتا ہے تو امن و سکون کی بادِ بہاری چلنے لگتی ہے اورعدل و قسط کا دور دورہ ہو جاتا ہے ۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعدانگریزوں نے مصر پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی  اور شاہ فواد کو بادشاہ  دیا ۔ فوادبرطانوی سامراج کاا سی طرح باجگذار تھا جیسا کہ آزادی سے قبل ہندوستان کے نواب اور راجہ ہوا کرتے تھے لیکن جلد ہی وہاں بھی کانگریس جیسی ایک وفد پارٹی وجود میں آگئی اور اس نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف جنگ آزادی چھیڑ دی ۔ سعد ذغلول کو پہلے انگریزوں قیدو بند میں ڈالا اور پھر اس سے معاہدہ کرلیا گویا مصر میں برطانیہ جیسی ملوکیت نما جمہوریت قائم ہو گئی لیکن بادشاہ اور وفد کے درمیان تعلقات استوار نہ ہو سکے ۔ ذغلول کی موت کے بعد اسکی جگہ نہاس پاشا نے لی اور فواد کے بعد اس کا بیٹا فاروق بادشاہ بن گیا ۔اسی دور  ِپر فتن میں حسن البناء شہید نے اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی ۔۱۹۲۸ ء میں ۶افراد نے ملکر اس تحریک کا آغاز کیا اور ۱۹۳۶ ء تک اس کے ممبران کی تعداد ۸۰۰ تک پہنچ گئی لیکن ۱۹۳۸ ء کے آتے یہ تعداد دولاکھ تک جاپہنچی ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اخوان المسلمون کے رضا کاروں نے اسرائیل کے خلاف جہاد میں عملاً حصہ لیا  تھااور اس جاں نثاری کا بدلہ حکمرانوں نے یوں دیا کہ تحریک کے روح رواںحسن البناء کو شہید کر دیا گیا گویا اخوانیوں پر آزمائش و ابتلاء کا آغاز ہو گیا۔ لیکن اس کے باجود اخوان المسلمون کا زور نہیں ٹوٹا اور ؁۱۹۵۰ کے آتے آتے اخوانیوں کی تعداد ۲۰ لاکھ تک پہنچ گئی اور یہ تحریک نہ صرف مصر بلکہ عرب دنیا  کے چپے چپے میں پھیل گئی ۔
تحریک اسلامی پر ظلم کا توڑنے والی ملوکیت نما جمہوریت کچھ زیادہ دن ٹھہر نہ سکی ۱۹۵۲ ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ قدرت نے اس کو چلتا کر دیا ۔ اس بغا وت کےکرتا دھرتا جمال عبدالناصر اور انورسادات تھے ۔ بادشاہوں اور سیاستدانوں کی جگہ فوجی وردی میں ملبوس اشتراکیت نواز لوگ بر سر اقتدار آگئے لیکن اخوان  کے دن نہیں بدلے ۔ جمال عبدالناصر نے سید قطب  شہید کے پاک  خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے کی جسارت کر دی سیدقطب تو شہادت کا جام پی کر سرخ رو ہوگئے لیکن مشیت نے عرب قوم پرستی کے نام پر اترانے والے جمال عبدالناصر کو اسرائیل کے ہاتھوں ذلیل کردیا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب لیگ کی سربراہی سے اسے الگ کردیا گیا اوراسی صدمہ میں وہ جان بحق ہو گیا۔
 جمال عبدالناصر کے بعد ان کے دستِ راست انور سادات نے اقتدار سنبھالااور اخوانیوں پر مظالم جاری رکھے لیکن اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے کیلئے شام کے ساتھ ملکر اسرائیل  پر حملہ کردیا ۔ اس جنگ میں انہیں ابتدائی کامیابی حاصل ہوئی لیکن بالآخر جب امریکہ نے اسرائیل کی حمایت میں اپنی رسد روانہ کی تو جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور شام و مصر دونوں کو شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑا ۔ اس کے بعد انور دسادات  اشتراکی چولہ اتار کر پھینک دیا اور سرمایہ دارامریکیوں اور صہیونی یہودیوں سے ہاتھ ملا لیا تاکہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق کا سودہ کرکے اپنی کھوئی ہو ئی زمین حاصل کر سکیں ۔ لیکن یہ پینترے بازی انورسادات کے کوئی کام نہ آئی اور جس فوج کی وردی پہن کر وہ آیا تھا اسی فوج کے خوددار سپاہیوں نے اس کو سرِ عام سلامی لیتے ہوئے گولیوں سے بھون دیا۔ انور سادات کی موت پر امریکہ اور اسرائیل میں صف ِ ماتم بچھ گئی امریکہ کے تین سابق صدور نے جنازے میں شرکت کی ریمبو کہلانے والارونالڈ ریگن حفاظت کے ڈر سے نہیں آسکا لیکن ساری مسلم دنیا نے انورسادات کی موت پر سکون کا سانس لیا اس لئے کہ اس نے امت کی پیٹھ میں خنجر آزمایا تھا ۔
انور سادات کے بعد ان  کا نائب حسنی مبارک کا نامبارک ظہور ہوا جو تیس سال تک امریکہ اور اسرائیل کے تلوے چاٹتا رہا۔ اسرائیل کو سستے داموں پر گیس فراہم کرتا رہا اور نہ صرف غزہ کے فلسطینیوں بلکہ مصر کے اسلام پسندوں کا بھی گلا گھونٹتا رہا۔ اس دوران اس نے مصری عوام کو تمام حقوق کو ایک ایک کر کے پامال کیا۔ ان کا سماجی اور معاشی استحصال کیا عوام غربت و افلاس کی چکی میں پستے رہے اور یہ خود ۷۰ بلین ڈالر کے اثاثہ کا مالک بن گیااپنی عمرکے۸۴ ویں سال میں وہ  اپنے بیٹے جمال مبارک کی تاجپوشی کی تیاری میں مصروف تھا کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔وہ تیونس میں برپا ہونے والے انقلاب سے ترغیب حاصل کر کےسڑکوں پر اتر آئے اور اب مبارک  لوگوں کے سامنے گڑ گڑا رہا ہے۔ میں دوبارہ انتخاب نہیں لڑوں گا ۔ میرا بیٹے نے  بھی استعفیٰ دے دیا ایسی دہائی دے رہا لیکن عوام کو اس مگر مچھ اعتبار نہیں  وہ اسکو بھگانے بلکہ اب تو اس پراسکے جرائم کیلئے  مقدمہ چلانے پر تلے ہوئے ہیں۔فوج نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ۔ اس کے نامزد کردہ وزیر اعظم کو عوام نے دفتر میں داخل ہونے سے روک دیا اور اسکی قومی جمہوری پارٹی کے سارے دفاتر کو پھونک دیا گیا ۔  
مصر کے موجودہ صورتحال پر محتاط ترین تبصرہ واشنگٹن میں موجود مصری سفیرسامع شکری نے کیا ۔وہ بولے مستقبل کا مصر بہر صورت موجودہ مصر سے مختلف ہوگا۔ اس احتیاط کی وجہ یہ ہے سامع اب بھی اسی حکومت کے ملازم میں ہیں جو اقتدار سے جونک کی طرح چپکا ہوا ہے اور چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائے کے اصول پر کارفرما ہے ۔بدقسمتی سے اسکی کھال اس قدر موٹی ہے کہ لاکھ ادھاڑے جانے پر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی یہ کھال دراصل ایک مایا جال ہےکہ جواس سے چمٹ جاتا ہےوہ پہلے تو مالا مال ہوتا ہے اور بعد میں کنگال ہو کر رخصت ہو جاتا ہے ۔قرآن مجید میں قارون کی مثال دی گئی ہے وہ بنی اسرائیل کے اندر پیدا ہوا لیکن اپنے مفاد کی خاطر فرعون کا حواری  بن گیا نتیجہ میں اس کی دولت میں اضافہ ضرور ہوا لیکن بالآخر اسے اپنے مال  واسباب کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا گیا۔ نہ اس کا مال اس کے کسی کام آسکا اور نہ فرعون کی سرپرستی اسے تباہ وبرباد ہونے سے بچا سکی فی الحال حسنی مبارک کے پاس خطیر اثاثہ ہے اوراسرائیل  سمیت  امریکہ ،یوروپ اس کی تباہی پر ٹسوے بہا رہے ہیں لیکن اس کا اقتدار  دن بدن ذلت و رسوائی  کے دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔فنا کے شعلے اس کی چاروں طرف لپک رہے ہیں اس صورتحال پر کیا خوب تبصرہ ترکی وزیر اعظم طیب ارغدان نے کیا انہوں نے حسنیٰ مبارک سے کہا ہم میں سے کسی کو حیات جاودانی حاصل نہیں ہے ہر ایک کو  اس دنیا  سے لوٹ کر جانا ہے لیکن بعد از موت ہم کو ان اعمال کا حساب  بھی دینا جو ہم اس دنیا میں کر کے لوٹیں گے ۔ اس موقع پر حسنیٰ مبارک کیلئے اوبامہ  سے بہتر نصیحت ارغدان کی ہے۔ یہی بات فیض احمد فیض نے اپنی نظم "ہم دیکھیں گے" میں کہی تھی
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ا زل میں لکھا ہے
ہم دیکھیں گے
بس نام رہے گا الله کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
وہ خالق بھی ہے مالک بھی
گزشتہ نوے سالوں میں مصر کے اندر تمام قسم کے سیاسی تجربات کئے جا چکے ہیں۔ ملوکیت کے ساتھ جمہوریت کو آزمایا گیا۔ اشتراکی آمریت بھی آئی اور چلی گئی۔ سرمایہ دارانہ استحصال کا مزہ بھی لوگوں نے چکھ لیا۔ ان تما م نظاموں کو چلانے والے سیکولر لوگ تھے جو قوم پرستی پر ایمان رکھتے تھے۔ مغرب سے تعلیم یافتہ اور مغرب کے رحم و کرم پرانحصار کرتے تھے  ۔ اگر کو ئی یہ کہتا ہے کہ وہاں حقیقی جمہوریت نہیں قائم ہو سکی اس لئے مسئلہ ہوا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ امریکہ ، اسرائیل اور ہندوستان ان تینوں ممالک میں حقیقی جمہوریت موجود ہے اور اسکے باعث خود ان ممالک کی عوام کو کیا مل رہا ہے نیز ساری دنیا میں اس کی وجہ سے کس قدر فتنہ بپا ہے یہ جاننے کیلئے کسی تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ مصر اور عالم انسانیت کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ مختلف باطل نظریات کو تو آزمایا جاتا ہے لیکن اسلام سے کنی کاٹ لی جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے آئینہ وہی رہتا ہے چہرے بدل جاتے ہیں۔ اس مرتبہ مصر کی عوام آئینہ بدلتے ہیں یا چہرہ؟اس سوال پر ساری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں  ۔ سارے لوگ دیکھ رہے ۔ آپ اور میں بھی ان  دیکھنے والوں میں شامل ہیں  ہم سب کی  حالت  فیضؔ جیسی ہے        جس کا  کہنا ہے           ؎
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے