ہماری لسانی عسرت اور اس کے اسباب (شاہ نواز فاروقی
پاکستان کی سب سے بڑی معاشی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی آبادی کا 80 فیصد خط ِغربت سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی لسانی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی آبادی کا 80 فیصد ”خط ِغربت ِلسانی“ سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صورت حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ ملک کو لسانی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ملک کے ممتاز نقاد ڈاکٹر تحسین فراقی نے برادرم رﺅف پاریکھ کے ایک مضمون کے حوالے سے لکھی گئی ایک تحریر میں اس امر پر گہری تشویش ظاہر کی ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں انگریزی الفاظ اور رومن رسم الخط کا استعمال ہولناک حد تک بڑھ چکا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے ٹی وی کے پروگراموں کے ناموں کی مثال دی ہے۔ مثلاً کیپٹل ٹاک، کرائسس سیل، اے مارننگ ود فرح، برنچ ود بشریٰ، لائیو ود طلعت، اونسٹلی اسپیکنگ، خواجہ آن لائن، شادی آن لائن، عالم آن لائن۔ڈاکٹر تحسین فراقی نے اشتہاری تختوں میں رومن اور انگریزی کے استعمال کی مثالیں بھی دی ہیں، مثلاً
P i y o aur Jiyo (پیو اور جیو)، No Sumjhota (نو سمجھوتا)، Thund Programme (ٹھنڈ پروگرام)، Helthy Hoga Pakistan (ہیلدی ہوگا پاکستان)، Sub Keh do (سب کہہ دو) وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹر صاحب یہاں صرف مثالیں دے کر نہیں رہ گئی، انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آخر اس لسانی صورت ِحال کا سبب کیا ہی؟ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ کہیں یہ اردو رسم الخط کو ختم کرکے اس کی جگہ رومن رسم الخط رائج کرنے کی سازش تو نہیں؟ پاکستان کے خلاف اتنی سازشیں ہورہی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ملک کو جس لسانی صورت ِحال کا سامنا ہے اس کی توجیہہ دلائل کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ آئیے ان دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔پاکستان کی اشتہاری دنیا کی دو بنیادی حقیقتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس پر مغرب اور بھارت کے اشتہاری کلچر کا گہرا اثر ہی، بالخصوص بھارت کے اشتہاری کلچر کا۔ اس دنیا کی دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس میں تخلیق کے بجائے نقل اور ترجمے سے کام چل رہا ہے۔ لیکن ان باتوں کا مفہوم کیا ہی؟ بھارت کی لسانی حقیقت یہ ہے کہ وہاں اگر خالص ہندی یا انگریزی میں اشتہار بنائے جائیں تو ان کا ابلاغ نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ بازار کی ضرورت کے تحت اپنے اشتہارات، فلموں، ٹی وی ڈراموں کے عنوانات اور ان کے مواد کے لیے ایک ایسی زبان استعمال کررہے ہیں جو اردو، ہندی اور انگریزی کا ملغوبہ ہے۔ یہی ملغوبہ پاکستان میں اشتہاری دنیا اور برقی ذرائع ابلاغ کے لیے ”نمونہ“ بن گیا ہی، اس فرق کے ساتھ کہ پاکستان میں ہندی نہیں چل سکتی اس لیے اس ملغوبے میں ہندی موجود نہیں ہوتی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ڈاکٹر تحسین فراقی اور بھائی رﺅف پاریکھ نے جس لسانی سانچے پر تشویش ظاہر کی ہے وہ بنیادی طور پر ”بازار کی زبان“ یا جیسا کہ ہمارے معاشرے میں کبھی کہا جاتا تھا ”بازاری زبان“ ہے۔ لیکن ہماری رائے میں اس کے لیے بازار کی زبان کی اصطلاح زیادہ موزوں ہے۔ اس لسانی صورت ِحال کو زیادہ علمی پیرائے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ یہ زبان کی عالمگیریت ہی، اور عالمگیریت کے عہد میں بہت سی زبانوں کے ساتھ یہی ہوگا۔ لیکن یہ صورت ِحال کا محض ایک پہلو ہے۔صورت ِحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہماری اشتہاری ایجنسیوں کے تخلیقی شعبوں اور ہمارے ذرائع ابلاغ کے فیصلہ کن مقامات پر انگریزی میڈیم لوگوںکا غلبہ ہے۔ یہ لوگ لسانی سطح پر ہی نہیں نفسیاتی سطح پر بھی زیادہ سے زیادہ انگریزی کے استعمال کی جانب مائل رہتے ہیں۔ اس پہلو سے متصل ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اشتہارات اور ذرائع ابلاغ کا بنیادی کام اپنے مواد کو زیادہ پُرکشش بنانا ہے۔ اس کے دو طریقے ہیں، آپ زبان کے تعمیری استعمال کے ذریعے بھی کشش پیدا کرسکتے ہیں اور زبان کی تخریب کے ذریعے بھی لسانی مواد کو باعث ِکشش بنایا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اشتہاری ادارے اور ذرائع ابلاغ زبان کی تخریب کے ذریعے اسے لوگوںکے لیے قابلِ توجہ بنا رہے ہیں، اور اس کی جو صورت انہیں اپنے لیے قابلِ عمل محسوس ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ اردو اور انگریزی کا ملغوبہ تیار کیا جائے۔اس صورت ِحال کا ایک سبب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں انگریزی اور اس کے حوالے سے رومن رسم الخط علم، تہذیب اور جدیدیت کی علامت سمجھے جاتے ہیں، چنانچہ ان کا استعمال جہاں کہیں بھی ہوتا ہے اسی تناظر میں ہوتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انگریزی نام اور انگریزی الفاظ کم لوگوں کی سمجھ میں آتے ہیں، اور یہ بات درست ہی، لیکن جن لوگوں کو انگریزی نام اور انگریزی الفاظ سمجھ میں نہیں آتے وہ ان چیزوں سے اُن لوگوں کی نسبت زیادہ مرعوب ہوتے ہیں جن کو یہ چیزیں سمجھ میں آتی ہیں۔ تفہیم الفاظ، اصطلاحوں اور ناموں کے جادو کو کم کردیتی ہی، لیکن عدم تفہیم اس جادو کو بڑھا دیتی ہے۔ عدم تفہیم کا یہی جادو ہے جو ہمارے ذرائع ابلاغ اور اشتہاری اداروں کے لسانی سانچے کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم اس حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہمارا مجموعی لسانی سانچہ سطحیت بلکہ زوال کا شکار ہے۔ ادب میں فیض کی شاعری اس لسانی زوال کی سب سے بڑی مثال تھی۔ بلاشبہ فیض کی شاعری ”نئی“ تھی، رومانوی تھی، انقلابی تھی.... مگر فیض نے شاعری کو اردو شاعری کے علامتی نظام سے الگ کرکے اسے عسرت میں مبتلا کردیا۔ فیض کی تاریخی اہمیت تسلیم.... مگر ان کی شاعری میں معنوی، جذباتی اور نفسیاتی گہرائی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے فیض کے مقلدین کے یہاں صورت حال اور بھی تشویش ناک ہوگئی۔ فیض کے سب سے اچھے مقلد احمد فراز ہیں، اور احمد فراز کی شاعری کے بارے میں خیال تھا کہ اردو شاعری اس سے نیچے کیا جائے گی؟ لیکن فرحت عباس شاہ اور وصی شاہ وغیرہ شاعری کی سطح کو فراز کی سطح سے بھی نیچے لے گئی، اور اب ہم ایف ایم ریڈیو کی شاعری کے عہد میں زندہ ہیں جو سرے سے شاعری ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی قوم کے ادب میں معنوی، نفسیاتی، جذباتی اور لسانی گہرائی کا کال پڑ جائے گا تو اس کے ذرائع ابلاغ اور اشتہاری اداروں کی زبان میں جو تباہی محو ِرقص ہوجائی، کم ہے۔معاشرے میں علم و ادب کے زوال نے ایک ایسی صورت ِحال پیدا کردی ہے جس میں ”ابلاغ“ سب سے اہم چیز بن گیا ہے۔ کسی اور کا ذکر کیا، ہم اپنے کالم میں ایک اردو لفظ اور اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا قارئین اس کو سمجھ لیں گی؟ معاشرے کی مجموعی علمی و لسانی صورت حال اس کا جو جواب فراہم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ شاید قارئین کا ایک حصہ اس لفظ اور اصطلاح کو نہ سمجھ سکی، چنانچہ ہم اس لفظ کا انگریزی متبادل بھی لکھ دیتے ہیں۔ یہ انگریزی کا علمی و لسانی مجبوری کے تحت ہونے والا استعمال ہے۔ ظاہر ہے کہ اشتہاری دنیا اور ٹیلی وژن وغیرہ کا اصل ہدف ابلاغ ہی، شاید اس لیے بھی ان کے لسانی سانچے میں انگریزی الفاظ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ زبان کا سیاسی طاقت کے مرکز اور اس کے کھیل سے بھی گہرا تعلق ہے۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک ہمارے حکمران طبقے کی زبان اور لسانی ترجیح نہیں بدلے گی اُس وقت تک وطن عزیز میں زبان کی عسرت بلکہ زبان کی تخریب کا عمل جاری رہے گا۔ بھٹو صاحب سے پہلے قمیص شلوار صرف ”محکموں“ کا لباس تھا۔ مگر بھٹو صاحب نے قمیص شلوار پہن کر اسے حاکموں کے لیے بھی قابل استعمال بنادیا۔ ہمیں زبان کے حوالے سے بھی ایسے کسی تجربے کی ضرورت ہے۔