حیدرآباد میں غیر مسلموں کی اردو کے لیےخدمات
رشید الدین | حیدرآباد دکن
اردو ہندوستانیوں کی پسندیدہ زبان ہے ۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اردو کے پرستاروں میں سے تھے ۔ اردو ادبا اور شعراء کی فہرست کا جائزہ لیں تو ان میں بلا تفریق مذہب و ملت سارے ابنائے وطن کے نام نظر آتے ہیں۔اردو زبان کا وجود ہندوستان میں ہوا ۔ ہندوستانیوں نے اس زبان کی ترقی میں موثر رول ادا کیا ۔ اس زبان کی شیرینی اور لطافت کے نہ صرف ابنائے وطن بلکہ مستشرقین بھی دل و جان سے قائل رہے ۔ چنانچہ مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی نے اردو کے مشہور شاعر ولی اورنگ آبادی کو اردو کا باوا آدم قرار دیا اور ان کے دیوان کو فرانس میں زیور طبع سے آراستہ کرکے منظر عام پر لایا ۔
حیدرآباد میں اردو ادب کے منظر نامے میں بہت سے غیر مسلم حضرات کے نام نمایاں نظر آتے ہیں ۔ اردو کی وجہ سے جو تہذیب پروان چڑھی اس کو گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں ۔
ان حضرات میں ایک اہم نام دامودر ذکی کا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اردو شاعری کی مختلف اصناف میں اپنے جوہر دکھائے بلکہ نعت شریف بھی اتنا ڈوب کر لکھتے تھے کہ عبدالماجد دریابادی جیسی شخصیت نے ان کے اور رگھویندر راؤ ، جذب عالم پوری کے تعلق سے کہا تھا کہ وہ کس منہ سے ان حضرات کو غیر مسلم شعراء کہہ سکتے ہیں ۔ ذکی کو میلاد النبیؐ کے جلسوں میں بھی مدعو کیا جاتا تھا ۔ میلاد النبیؐ کے ایک جلسہ میں وہ اپنا نعتیہ کلام سنارہے تھے ۔ ان کے اس شعر پر سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں ۔
قیامت میں محمدؐ کا سہارا ڈھونڈھنے والے
سنا بھی زندگی میں تو نے فرمایا محمدؐ کا
ایسے ہی قلمکاروں میں ایک ہستی رائے جانکی پرشاد کی بھی تھی ۔ اردو میں اعلی قابلیت کی وجہ وہ دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے تھے ۔
قیام جامعہ عثمانیہ کے بعد اردو کو علمی درجہ تک پہنچانے کے لئے دارالترجمہ قائم کیا گیا تھا جہاں اردو کے بلند قامت ادبا اور شعراء کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن میں جوش ملیح آبادی ، علامہ عبداللہ عمادی اور بابائے اردو جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں شامل تھیں ۔ رائے جانکی پرشاد نے ایسی بلند قامت شخصیتوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو پورا کیا اور علمی اصطلاحات کی تدوین فرمائی ۔
رائے جانکی پرشاد ہندو مسلم تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے ۔ ان کا لباس ٹوپی، شیروانی اور پاجامہ ہوا کرتا تھا ۔ وہ وظیفہ حسنِ خدمت پر علحدگی کے بعد مختلف سماجی اداروں سے وابستہ ہوئے اور ان کی رہنمائی کی ۔ وہ بڑے صاحب الرائے شخصیت کے حامل تھے ۔ حامد نواز جنگ نے جو لاولد تھے انہی کے مشورے پر اپنے گراں قدر سرمائے سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جس سے فنی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلباء کو وظائف جاری کئے جاتے تھے ۔ رائے جانکی پرشاد اس ٹرسٹ کے واحد غیر مسلم ٹرسٹی تھے۔
نواب مہدی نواز جنگ جو اس وقت وزیر طبابت تھے، انہوں نے رائے جانکی پرشاد کے مشورے پر ہی کینسر ہاسپٹل قائم کیا ۔ اردو ہال کا قیام بھی موصوف کے گراں قدر مشوروں کا حاصل ہے ۔ ان ساری گوناگوں مصروفیات کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا ۔ ان کی تصانیف ’’عصر جدید‘‘ ’’ترجمہ کا فن‘‘ اور ’’انگریزی اردو ڈکشنری‘‘ اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔
تخلیق کار اپنی تخلیق ، محقق اپنی تحقیق اور نقاد اپنی تنقید سے ادب کے گیسو سنوارنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ باگاریڈی نے اردو بولنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اردو کی گراں قدر خدمت انجام دی ۔ راقم کا آندھرا کی تشکیل کے بعد پہلے سب انسپکٹر پولیس بیاچ 1958ء سے تعلق رہا ہے ۔ شرائط ملازمت کے اعتبار سے تین سال کے عرصہ میں اس بیاچ والوں کو تھرڈ کلاس تلگو زبان دانی کا امتحان پاس کرنا ضروری تھا ۔ 1959ء میں ٹریننگ کے کامیاب اختتام پر راقم کو نظام آباد پر تعینات کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد تین سال تک پبلک سروس کمیشن نے مطلوبہ زبان دانی کا امتحان ہی منعقد نہیں کیا ۔ شرائط ملازمت کے تحت راقم ، سری دھر راؤ اور محمد علی خاں کو ملازمت سے ہٹادیا گیا ۔ باگاریڈی نے بحیثیت صدر انجمن تحفظ اردو ہمارے کیس کو اس وقت کے چیف منسٹر جناب نیلم سنجیواریڈی صاحب سے رجوع کیا اور ان کی کامیاب نمائندگی سے تین مہینے میں ہم لوگوں کی بحالی عمل میں آئی۔
باگاریڈی جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل تھے ۔ وہ ضلع پریشد میدک کے صدر نشین رہ چکے ہیں ۔ انہوں نے ظہیر آباد میں ایک ادبی انجمن ’’بزم سخن‘‘ قائم کی تھی ۔ انہوں نے اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش کے صدر کی حیثیت سے بھی نمایاں خدمات انجام دیں ۔ انھوں نے اردو ویلفیر فنڈ قائم کیا تھا جس سے مستحق اور ضرورت مند قلم کاروں کی مدد کی جاتی تھی ۔ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے‘‘ اور دوسری کتاب ’’تلگو زبان اور ادب‘‘ اور تیسری کتاب ’’آندھرا پردیش‘’ ان کی یادگار ادبی تصانیف ہیں ۔
بھارت چند کھنہ ملک کے ممتاز مزاح نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔ انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے ایم اے کیا ۔ وہ انجمن زندہ دلان حیدرآباد کے بانی رہے ۔ انہوں نے 1966ء میں زندہ دلان حیدرآباد کی پہلی کل ہند کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کیا تھا ۔ ان کے ظریفانہ مضامین حیدرآباد کے موقر روزنامہ سیاست میں شائع ہوا کرتے تھے ۔ ان کے طنزیہ مضامین کا مجموعہ ’’تیر نیم کش‘‘ اور ان کی مشہور مزاحیہ کتاب ’’ذرا مسکراؤ‘‘ شائع ہوچکی ہے ۔ انہوں نے راج بھون میں گورنر کے سکریٹری کے فرائض بھی انجام دئے ۔ اس زمانہ میں سکریٹریٹ کی اردو اسوسی ایشن قائم ہوئی جس کے وہ پہلے صدر تھے ۔
کنول پرشاد کنول ، اردو اور ہندی کے ممتاز شاعر تھے ۔ وہ مشاعروں میں اپنا کلام مخصوص ترنم کے ساتھ سناتے اور کبھی تحت اللفظ بھی سنایا کرتے تھے ۔ انہوں نے لال قلعہ میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں بھی اپنا کلام سنایا ۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر محکمہ اطلاعات کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے انہوں نے اردو کی بڑی خدمت انجام دی ۔ ان کی ابتدائی دور کی شاعری کی ایک نظم ’’مجھ سے میرا نام نہ پوچھو‘‘ کافی مقبول ہوئی ۔ اردو شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ ان کا نعتیہ کلام بھی سند مقبولیت حاصل کرچکا ہے ۔ کڑپہ میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں ان کی نعت شریف حاصل مشاعرہ رہی ۔ ان کے تعلقات نہ صرف ہندوستانی شعراء سے تھے بلکہ پاکستانی شعراء سے بھی خاص تعلقات تھے ۔ پاکستان کے ایک مشاعرہ میں ان کو مدعو کیا گیا تھا ۔ اس مشاعرہ میں جو غزل انہوں نے پڑھی تھی اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے۔
جسے تم یاد میں اپنی تڑپتا چھوڑ آئے ہو
تمہاری نذر اس بھولے وطن کا نام لایا ہوں
میں دیکھوں گا کہ اب کن کن سے تم آنکھیں چراؤگے
شب عثمان ساگر صبح باغ عام لایا ہوں
اٹھاؤ اپنی نظریں پی سکو تو ان کو پی جاؤ
بھری آنکھوں میں الفت کے چھلکتے جام لایا ہوں
محبوب نارائن نہ صرف علمی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے بلکہ سماجی سرگرمیوں میں بھی وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ۔ پرانے شہر میں جب بھی کوئی وبا پھوٹ پڑتی جیسے چیچک ، پلیگ ، ہیضہ وغیرہ تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی سرگرمی سے متاثرین کو دواخانہ پہنچاتے اور مرنے والوں کی نعشوں کو آبادی سے دور لے جا کر سپرد خاک و آگ کردیا کرتے تھے ۔ وہ حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت اور اردو کے پرستار تھے ۔ ان کی تحریر کردہ کتاب ’’گزشتہ حیدرآباد‘‘ حیدرآبادی تہذیب کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ اسی طرح راج بہادر گوڑ نے ساری زندگی اردو کی خدمت کی جنہوں نے اپنے پیشہ طبابت کو خیرباد کہہ کر اردو کی خدمت انجام دی ۔ ایسے ہی بے شمار شاعروں اور ادیبوں کے نام آج بھی روشن ہیں جنہوں نے اردو شعر و ادب کی خدمت انجام دے کر اس زبان کی لطافت کو نمایاں کیا ۔